عشق رسول اور ہمارا حتجاج،ایک کہانی ایک افسانہ ، امجد پرویزساحل
ایک دن حسب معمول اپنا ای میل کھولا اور ایک خبر ہیڈلائن کی زینت بنی ہوئی تھی کہ لیبیا میں لوگوں نے ایک امریکی سفارتکار کو مارڈالا ہے، اور اس سٹوری کے ساتھ اسکی کی تصویر بھی دکھائی گئی تھی جس میں چند نوجوان لڑکے اس کی لاش کو زودوکوپ کر رہے تھے، یہ ایک ارٹیکل تھا جس میں ہیلری کلنٹن کی تقریر کے چند بیان تھے کہ اسلام دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ہے اس کا احترام ہم سب پر لازم ہے اور ساتھ یہ بھی درج تھا کہ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم عظیم نبی کے شان میں ایسی حرکات فلمبند کریں، اسکی تقریر میں یہ بھی تھا کہ اسلام ایک عظیم مذہب ہے لہذہ کسی ایرے غیرے کے کچھ بکنے سے اسکو کسی قسم کے خطرے میں نہیں پڑھنا چاہیے اور تمام مسلمان بھائیووں کو صبر سے کام لینا چاہیے ۔ بیشک جیسے ہیلری نے فرمایا تھا درست تھا لیکن یہاں بات ایمان کی تھی اور ایمان کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ بات نکلتی نکلتی ہمارے میڈیا تک آپہنچی،ایک شخص جس کو اسکے گھر والے نہیں جانتے تھے ہمارے میڈیا نے اسے آدی دنیا سے متعارف کرادیا، وہ فلم کیا ہے ہمیں آج تک نہیں پتا چلا اور نہ ہم نے اس سے کچھ لینا دینا ہے بس میڈیا سے اخز کیا ہے کہ وہ ایک گستاخی ہے جوایک امریکہ کے تھرڈکلاس شہری نے کی ہے اس کا فیصلہ خدا خود کریگا۔ بہرحا ل خبر عام ہوتے ہی سب سے پہلے پاکستان کی اقلیتوں بالخصوص مسیحوں کے لیے ایک نیا سیاپا ثابت ہونے والی تھی کیونکہ یہ کمیونٹی تو پہلے ہی آئینی اور غیر آئینی زیادتیوں کا شکار ہے اب اور مصیبت تلوار بن کر سر پر منڈلانے لگی۔ مسیحی تعلیم تو مبنی ہی احساس اور محبت پر ہے اسکا بڑا ثبوت مسیح کا ہماری نجات کے لیے جان دینا ہے۔ لہذا ہم یا تو جان بچانا جانتے ہیں یا جان دینا جانتے ہیں، جان لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس جیسے ہی خبر ہمارے میڈیا پر نشر ہوئی پوری اسلامی دنیا میں جیسے کھلبلی سی مچ گئی خاص طور پر پاکستان میں جہاں عاشقان رسول ہمہ وقت جان لینے اور دینے کے لیے تیا ر رہتے ہے ۔ ہر طر ف ایک بے چینی سی ہونے لگی ، ہمارے ملک کا ایک مسلہ یہ بھی ہے کہہ ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ اصل مسلہ ہے کیا ۔مذہبی جماعتوں اور میڈیا کے دباؤ سے حکومت نے ہنگامی فیصلہ کیا کے عشق رسول کا دن احتجاج کے طور پر منایا جائے اور فوراء اعلان بھی کر ڈالا، فرحت جذبات میں حکومت یہ بھول گئی کہ ہر کام کا یا ہر با ت کا ایک ایجنڈہ بھی ہوتاہے یا کوئی طریقہ کار بھی ہوتا ہے جو حکومت دے نہ سکی اور نہ ہی حکومت نے کوئی آل پارٹیز میٹنگ بلائی تاکہ مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیا ر کیا جائے۔ ادھر مسیحی لوگ جو واقعتا مسلمانو ں سے زیادہ محب وطن ہیں اپنے مسلمان بھائیووں کے مذہبی جذبات کی وجہ سے اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق،جلسے اور ریلیووں میں ساتھ ساتھ شامل ہوئے بہت سی ریلیاں تو تقریبا ء ایک دن پہلے ہی نکال لی گئی تاکہ ہمارے مسلمان بھائیووں کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔ پاکستان کا کوئی شہر ،کوئی قصبہ یا گاؤں ایسا نہ تھا جہاں سے مسلم بھائیووں سے یک جہتی کی ریلیاں نہ نکالی گئی ہوں اور میڈیا بھی اچھا رول ادا کررہا تھا، تقریبا ہر چینل پر مسیحوں کی شمولیت اور اچھے عمل کو سراہا جارہا تھا۔ پس جی احتجاج کا دن آگیا تقریباء ہر شہر سے لوگ جوق در جوق سڑکو ں تک آنے لگے ۔ایک جمہ غفیر بازاروں اور شاہراہوں پر امڈ آیا تھا۔ ہر طر ف اﷲ اکبر کے نعرے لگ رہے تھے۔لوگ اپنے اپنے اندر کے غصہ اور جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔اس احتجاج کا مقصد دنیا کو اپنے نبی پاک سے الفت اور محبت کا یقین دلانا تھااور ایک پیغام دینا تھا کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور مسلمان پیار کرنے والے لوگ ہے، لہذہ ڈیڈارب مسلمان کی دل ازاری ہوئی ہے۔ لیکن یہاں تو بات ہی کچھ مختلف ہوئی ۔لوگ احتجاج کرنے کی بجائے حکومت اور پرائیویٹ املاک نذر آتش کر رہے تھے بات غلط ہے لیکن املاک توڑنا تو سمجھ میں آتا ہے املا ک چوری کرنا ،لوٹ مار کرنا،یہا ں تک کہ بینک اور دوکانیں اور شراب خانے تک چوری کر لینا ، یہ کہاں کا احتجاج ہے۔ مسلمان، اسلام اور آپ نبی اکرم کو والہانہ محبت کرتے ہیں، بہت اچھی بات ہے۔لیکن املا ک چوری اور لوٹ مار کرنا کونسی محبت ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ تو نہیں سکھاتی کہ اپنی ریاست کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے یہ اپنے لوگوں کو قتل کر دیا جائے یہا ں تک کے غیر مسلماموں کی عبادات کو جلادیا ئے یہ حکومت تو حکومت چرچ تک نہ چھوڑے گئے کیا ایسے ممکن نہ تھا کہ سب مسلم بھائی اس دن اپنے چوکوں اور شاہراہوں پر آپ نبی اکرم کے قصیدے گاتے اور درود شریف بھیجتے تاکہ ایمان کو تازگی اور مضبوطی ملتی اور دشمن کو ہمارے ایمان کی حدت اور شدت کا اندازہ ہوتالیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیا مسیح نے اس پھل کی بات کی ہے؟ کیا اسلام سے محبت صر ف غریب اور میڈل کلاس کا مسلہ ہی ہے۔ کیا بڑے بڑے علما، سیاسی لیڈر، بیوروکریٹس اور امرا کو کوئی محبت نہیں ، وہ اس احتجاج میں کہاں تھے۔ سب نے ملکر مسائل کی بات کی ہے لیکن اس کے حل کی طرف کوئی جا ناہی نہیں چاہتا دراصل کچھ لوگ اسکا حل نکالنا اور بتاناہی نہیں چاہے کیونکہ کے اس طر ی کے مسائل سے ان کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔ ایسے موقع پر میا ں محمد بخش فرماتے
ہیں کہ
نیچاں دی آشنائی کو فیض کسے نہ پایا
ککر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا